Computer games were, at one time, unified. We didn’t even have the term “casual game” in 1993, let alone the idea that a first-person shooter (then an unnamed genre) could be considered a “hardcore title.” There were people who played computer games, and people who didn’t. People who got way into golf or Harpoon or hearts or text adventures — those were the “hardcore” players, in that they played their chosen field obsessively.
When Myst and the CD-ROM finally broached the mass market, this ecosystem was disrupted. Myst had, Robyn Miller makes clear, been designed to appeal to non-gamers. It sold to them. Enthusiast magazines like Computer Gaming World couldn’t set the taste for the industry anymore: there were millions buying games who didn’t read these magazines. An entirely new breed of player. In this situation, what could be more natural than concocting an us-and-them formula? In a very real way, it was already true.
The great narrative of Myst is that the “hardcore” game press and playerbase lambasted it when it launched. Disowned it. A slideshow, they called it. Abstruse, idiotic puzzles; pretty graphics and not much depth. “Critics and hardcore game players universally panned it as a slide-show that had little actual gameplay interaction”, claimed PC Gamer’s Michael Wolf in 2001.That same year, a columnist for Maximum PC recalled Myst as a “tedious code-breaking and switch-throwing mess”, and saw its then-new remake realMYST as “a pointed reminder of why the press dumped on the original so heavily when it came out.” | ایک وقت تھا کہ کمپیوٹر کھیل یکساں نوعیت کے ہوتے تھے۔ 1993 میں ہمارے پاس "کیژول گیم" [وہ عارضی ، سرسری اور غیر رسمی وڈیو کھیل جسے کھیلنے کے لئےزیادہ وقت صرف نہیں کرنا پڑتا] نام کی اصطلاح تک موجود نہ تھی، اس خیال کا تو خیر ذکر ہی کیا کہ فرسٹ پرسن شُوٹر [تب تک وڈیو کھیل کی ایک بے نام صنف] کو ایک "ہارڈ کور ٹائٹل" [ایسا وڈیو کھیل جس کے کٹر کھلاڑی انتہائی جوش، جذبے اور جنون کے ساتھ اسے بہت زیادہ کھیلتے ہیں] تصور کیا جا سکتا تھا۔ ایسے لوگ موجود تھے جو کمپیوٹر کھیل کھیلتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں کھیلتے تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے گالف یا ہارپون یا ہارٹس یا ٹیکسٹ ایڈونچر جیسے کمپیوٹر کھیل کھیلنا شروع کر دئیے، یہی وہ "کٹر جنونی کھلاڑی" تھے جنہوں نے کھیل کے اپنے منتخب کردہ میدان میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ جب آخر کار مِسٹ اور سی ڈی روم نے اس عوامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی، تو کمپیوٹر کھیل کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ روبن ملر نے واضح کیا ہے کہ مِسٹ کو ان لوگوں کی دلچسپی حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا تھا جنہیں کمپیوٹر کھیل کھیلنا نہیں آتے تھے۔ یہ انہیں پسند آ گیا۔ کمپیوٹر گیمنگ ورلڈ جیسے پُر جوش رسالے اس صنعت کے ذوق پر مزید اثر انداز نہ ہو سکے: دسیوں لاکھوں ایسے لوگ یہ کھیل خرید رہے تھے جنہوں نے یہ رسالے نہیں پڑھے تھے۔ یہ کھلاڑیوں کی ایک بالکل ہی نئی قسم تھی۔ ایسی صورتحال میں ہم ۔ اور۔ وہ فارمولا ترتیب دینے سے زیادہ فطری بات اور کیا ہو سکتی تھی؟ ایک نہایت حقیقی انداز میں، یہ پہلے سے ہی درست تھا۔ مِسٹ کی شاندار کہانی یہ ہے کہ جب اس کا آغاز ہوا تو کھیل کے "کٹر حامی" رسالوں، اخبارات اور کھلاڑیوں نے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسے ایک تصویری منظر [سلائیڈ شو] قرار دیا۔ مُبہم، دشوار اور احمقانہ معمے؛ بہت زیادہ ترسیمی اور بغیر کسی گہرائی کے۔ پی سی گیمر میگزین کے مائیکل وولف نے 2001 میں دعویٰ کیا، "نقادوں اور پُرجوش کٹر کھلاڑیوں نے اس کھیل پر عالمی سطح پر اس بنیاد پر سخت تنقید کی کہ یہ ایک تصویری منظر ہے جس میں کھلاڑی کا کھیل سے اصل تعلق یا عمل دخل بہت کم ہوتا ہے"۔ اسی سال میکسیمم پی سی [کمپیوٹر میگزین] کے ایک کالم نگار نے مِسٹ کے متعلق یاددہانی کروائی کہ یہ ایک "خفیہ اشارات کو قابلِ فہم بنانے کا اور اپنی جگہ تبدیل کرنے کا اکتاہٹ کی حد تک تھکا دینے والا بیزار کُن افراتفری کا عمل ہے"، اور اس وقت کے نئے دوبارہ بنائے گئے حقیقی مِسٹ پر یہ تبصرہ کیا، "ایک واضح تلخ یاددہانی، کہ اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اخبارات اور رسالوں نے پرانے اصل والے مِسٹ کو اتنا زیادہ تنقید کا نشانہ کیوں بنایا"۔ |